سپریم کورٹ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کے تحریری حکمنامہ جاری۔۔ حکم نامے میں پوچھے گئے سوالات کس کےلئے ؟

Faizabad-dharna-case 22

سپریم کورٹ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس ،سپریم کورٹ نے 28 ستمبر کی سماعت کا 4 صفحات کا حکمنامہ جاری کر دیا ،حکمنامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے،سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام فریقین اپنے جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرائیں، کیس کی مزید سماعت 1 نومبر کو کی جائے گی، کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کی جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزید کاروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی، درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر چار پر اعتراض اٹھایا، دوران سماعت کیس سے متعلق چار سوالات اٹھائے گئے، دوران سماعت یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی، نظرثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں، دوسرا سوال، کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے، تیسرا سوال، کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟ چوتھا سوال، کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ان کا نکتہ نظر مدنظر نہیں رکھا، فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17 کے تحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے، عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے، عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی بھی شخص حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کرے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کے لیے تھا اس کے دائرہ کار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے، کوئی بھی فریق یا کوئی اور شخص اپنا جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں