فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیٰسی نے ریمارکس دئیے کہ تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی فیصلہ تسلیم کیا مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے غلطیاں سب سے ہوتی ہیں غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے یا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے وفاقی حکومت بتائے درخواستیں واپس کردیں، لیکن عملدرآمد کیا ہوگا، لگتا ہے مرحوم خادم رضوی نے فیصلے کو قبول کرلیا، غلطی مجھ سے بھی ہوسکتی ہے، پیمرا، الیکشن کمیشن کیوں اپ سیٹ ہے، کیا الیکشن کمیشن نے آزادانہ نظر ثانی دائر کی یا کسی کے کہنے پر دائر کی، پاکستان میں حکم اوپر سے آتا ہے، اوپر سے حکم آنے کا مطلب نعوذباللہ ۔۔۔اللہ نہیں ہے، اوپر سے حکم آنے کا مطلب کہیں اور سے آیا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے کبھی حکم پر نظر ثانی دائر کی تھی، مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا، سزا جزا تو بعد کی بات ہے، کم ازکم اعتراف تو کرلیں حکم اوپر سے آیا ہے اس لئے درخواست واپس لے رہے ہیں، نعوذباللہ ،اللہ کی طرف سے نہیں کہیں اور سے حکم آتا ہے، عدالت ضرور آئیں مگر عدالت کو استعال نہ کریں،اللہ بھی کہتا ہے معاف کرنا یا نہ کرنا اختیار تو ہے مگر پہلے معافی مانگیں تو صحیح،پہلے سچ کو تسلیم تو کریں ،اعتراف جرم تو کریں اگر جرم ہوا ،کہیں نا اس وقت الیکشن کمیشن کو ایک فرد واحد کے حوالے کر رکھا تھا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جب میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گا تو بولوں گا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ خادم رضوی تک نہیں پہنچ سکتے اعتراف نہیں کر سکتے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں نا 2017 میں دھرنا کیسے ہوا،معاملات کیسے چل رہے تھے،ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھا،وہ صاحب کدھر ہیں جن کو جمہوریت چاہیے تھی،وہ کینڈا سے پاکستان کیوں نہیں آئے،آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں،الیکشن کمیشن اگر دھرنا کیس فیصلے پر عملدآمد چاہتا ہے تو اپنے متعلقہ حصہ کا فیصلہ پڑھیں، وکیل الیکشن کمیشن نے متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر عملدامد کہاں ہوا وہ بتائیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
غلطی مانیں، سزا جزا بعد کی بات۔۔پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
