فون کالز ریکارڈنگ کا اختیار اور صلاحیت کس کے پاس ؟ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے رپورٹ طلب

Audio-Leaks-record 20

شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور ٹیلی فون کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت کس ادارے کے پاس ہے؟اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے دوبارہ رپورٹ طلب کر لی جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، عدالت نے قرار دیا کہ جواب دیں کس ایجنسی کے پاس شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت ہے، وفاقی حکومت کے کسی ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں عدالتی سوالوں کے جوابات نہیں دیے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے رپورٹ جمع کرانے کا ایک اور موقع دے رہی ہے، وفاقی حکومت اور ماتحت ادارے عدالتی سوالوں کے جوابات پر مشتمل نئی رپورٹس جمع کرائیں، عدالت ورنہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ٹیلی کام آپریٹرز سے براہِ راست جواب طلب کرے گی، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی بھی اپنی نظرثانی شدہ رپورٹ جمع کرائے، پی ٹی اے بتائے کہ قانونی مقاصد کیلئے فون کالز ریکارڈنگ کا اختیار کس کے پاس ہے؟ بتایا جائے کہ فون کالز ریکارڈنگ کی اجازت کا فریم ورک اور میکانزم کیا ہوتا ہے؟ پی ٹی اے نے ٹیلی کام آپریٹرز کو کالز ریکارڈنگ کی اجازت دینے کیلئے ہدایات جاری کیں؟ پی ٹی اے کی ایسی ہدایات اور لائسنس فراہمی کی تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ بنائی جائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی آئندہ سماعت 31 اکتوبر کو ہو گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں