اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کیخلاف اپیلوں کی سماعت اٹارنی جنرل پاکستان کی بیرون ملک مصروفیات کے باعث 3اکتوبرتک کے لیے ملتوی کردی ہے اور حکم امتناع غیر موثر ہوگیا جس کے بعد فریقین سے25ستمبرتک اضافی دلائل بھی تحریری طورپر مانگ لیے ۔ ایکٹ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی ۔عدالت نے کہاہے جوبھی ضروری ہواحکم نامہ جاری کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے فل کورٹ بنچ کی سربراہی کرتے ہوے ریمارکس دیے کہ بنچز کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججز سے مشاورت کی۔دونوں سینئر ججز سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا۔اس ہفتے بنچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا،ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بنچز کیسے تشکیل دینے ہیں، بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ اندرونی آزادی کیساتھ ساتھ احتساب اورشفافیت بھی اہم ہے، ریکوڈک کیس میں ملک کو6ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تونہیں لوں گا۔ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا، میں درخواست 10سال نہ لگاؤں تو کیا کریں گے۔ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس آئینی شق سے متصادم ہے، ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے زبردست وار نہیں کیا، آپ ڈیفنڈر کے طور پر رونما ہوگئے ورنہ یہ جنگ میری ہے، آپ رائے دینے کی بجائے آئینی بحث کریں۔وہ دوسینئرججزکی مشاورت سے ہی وہ بنچوں کی تشکیل کریں گے۔ پیر کے روز چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فْل کورٹ کے دیگرارکان میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس اعجازالحسن، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیرہوئی، تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔چیف جسٹس قاضی فائز نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے پاکستان بارکونسل کی فل کورٹ کی درخواست منظورکرلی ہے اور ہم نے بارکونسل کی درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا اس کیس میں 9 درخواستیں ہیں، اور اس کیس میں دلائل کون کون دے گا، کوشش کریں کہ دلائل کو محدودرکھیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ماضی کو دفن کردیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے معاملہ سنا ہی نہیں۔وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔ جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب اپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا دلائل دیں گے۔ جس پر وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں ان کا کیا ہوگا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ کوسننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمار مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، پارلیمنٹ قادر مطلق (omnipotent) ہے کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا آپ فوکس رکھیں۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو بھول جائے، آج کی بات کریں، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کاحصہ ہوں گے، پھر سوال تھا کے، ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق184/3میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگر قانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا۔ فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کاحق دیا گیا ہے اس پرعمل نہیں کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنے دلائل دیں اور بینچ ممبر کے سوال کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولزبنارکھے تھے، لیکن پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کااختیار آئین سے مشروط ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے خواجہ طارق رحیم کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب جوکچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں، آپ آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں۔چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھرادھر کی باتیں کررہے ہیں اس پرالگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے مؤقف اختیار کیا کہ انتظامی طور پر کیسے چلانا ہے، فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھ کر رولز بناتے ہیں۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں، کیا آپ ایک آفس کو اتنیاختیارات ہونے کی حمایت کرتے ہیں۔وکیل طارق رحیم نے کہا کہ بینچز سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے کرنیکا ہے، سپریم کورٹ کئی دہائیوں سے اپنے رولز خود بناتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ سپریم کورٹ رولز کو غیرآئینی قرار دے رہے ہیں، سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں، کیا جہاں اختیار ایک یا 3 ججز کا ہے وہ غیر آئینی ہے۔خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ میرانکتہ ہے کہ رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے پارلیمان کا نہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184/3جوڈیشل پاور سے متعلق ہے، اس قانون سے عدالت کواپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، عدالتی اختیارات کا فیصلہ کس نے کرنا ہے، میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کررہی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ باربار ’’میں‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کر رہے، آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں، کیا آپ کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے، خواجہ صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کون سا عوامی مفاد ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی، کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے، کیا پارلیمان نئے اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کوقبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ سوال نوٹ کرلیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیارہے کہ وہ اپنے اختیارات کواستعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل طارق رحیم سے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورزکوختم کیاگیا یا پھرسپریم کورٹ کی۔وکیل خواجہ طارق نے جواب دیا کہ آئینی مقدمات میں کم ازکم پانچ ججزکے بنچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس شق پرآپ کواعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔خواجہ طارق نے سوال اٹھایا کہ کیا تین ججز بیٹھ کر آئینی تشریح نہیں کر سکتے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہیں کہا جا رہا کہ جج قابل نہیں قانون سازی میں تعداد کی بات ہورہی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کے تین رکنی بنچ تشکیل دینے پرکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ماسٹر آف دی روسٹر والا چیف جسٹس کا اختیارغیر آئینی تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ کا سیکشن چار1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیاگیا، کیا اس قانون سازی کیلئے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر 17جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں توٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے، آپ کا پورا کیس یہی ہے نہ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیاراستعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کرسکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 199 کے اندراپیل کا حق دیا گیا تھا توکیا وہ غلط تھا، ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے کیا وہ ٹھیک تھے، اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں جواب دینے کی ضرورت نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہوں، آپ اپنے موکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اچھی چیز غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیدھا سا سوال پوچھا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی۔ جس پر خواجہ طارق نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے سو سوالات میں اصل مدعا تو گم ہوجائے گا۔ آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل خواجہ طارق سے کہاکہ آپ کو ہر چیز کا آئینی جواب دینا ہوگا، ابتک ایک بات بھی نہیں کہی کہ کیس طرح یہ قانون آئین سے متصادم ہے، ہمارے حقوق پر پارلیمنٹ نے زبردست وار نہیں کیا، آپ ڈیفنڈر کے طور پر رونما ہوگئے ورنہ یہ جنگ میری ہے، آپ رائے دینے کی بجائے آئینی بحث کریں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، قانون پارلیمنٹ نے بنایا۔وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہوگئے۔ تو چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے محدود کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ قانون عوامی مفاد کیلئے بنایا گیا یا ذاتی مفاد کیلئے، سوالوں کے جواب بعد میں تحریری طور جمع کروا دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیارمحدود کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ سپریم کورٹ کے رولزمیں ترامیم کرسکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر میں کیس کو نہیں لگاتا میری مرضی تو پھر کیا ہوگا، میں آپ کی درخواست 10سال نہ لگاؤں توآپ کیا کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس آئینی شق سے متصادم ہے، بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اندرونی آزادی کیساتھ ساتھ احتساب اورشفافیت بھی اہم ہے، ریکوڈک کیس میں ملک کو6ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں تونہیں لوں گا، آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں، خواجہ طارق صاحب آپ جواب تیارکرلیں آپ کو سنیں گے۔دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل شروع کیے اور ا س دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، سپریم کورٹ میں57ہزارکیسز التوا کا شکار ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی ہے تو سمجھ کیوں نہیں رہے، اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہا جاتا ہے I, Me and Myself اس کو یہاں استعمال نہ کریں۔جسٹس عائشہ ملک نے اعتراض اٹھایا کہ یہ ایکٹ رہتا ہے تو کیس کے خلاف اپیل کون سا بینچ سنیگا، کیا فل کورٹ کے فیصلے کا اطلاق 5 رکنی بینچ پر نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل184/3کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل184/3تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے، آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئرججز کے ساتھ بانٹ دیا گیا، اختیار باٹنے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، پارلمینٹ کا یہ اقدام توعدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، چیف جسٹس نے 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔ جس پر جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہرسوال کا جواب نہ دیں صرف اپنے دلائل دیں۔جسٹس منصور شاہ نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خلاف آئین قانون سازی سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ بتا دیں پھر کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیرالتواء مقدمات کی تعداد57 ہزار تک پہنچ چْکی ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں اپیل کا حق دیا جا رہا تو بہت اچھی بات ہے۔چیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز صدیقی صاحب میں آپ کے دلائل نہیں سن پا رہا، سوالات کوٹ کریں اور جوابات دیں۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ باہر کی دنیا میں بنیچ چیف جسٹس نہیں بناتا، بیلٹ کے ذریعے بنیچز کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ امتیازصاحب لگتاہے آپ دلائل دینا ہی نہیں چاہتے، آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بریک کے بعد اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تواس دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کیے انھوں نے کہاکہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اْٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی،اس پر جسٹس منیب نے کہاکہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے اے جی نے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، انھوں نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ کابھی حوالہ دیااور کہاکہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا،یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے،قانون کیزریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گے ہیں ،یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے،1973کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا۔ میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیںاس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے ،آپ نے دلائل درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کئے تھے وہ مکمل کریں،آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کر دی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے،یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ184/3 میں نہیں آتی ،ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے، جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہاکہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اْٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، جسٹس یحی ٰ نے کہاکہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے، اے جی نے کہاکہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے،جسٹس عائشہ نے کہاکہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہاکہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کیلئے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہاکہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اْٹھا رہے ہیں اے جی نے کہاکہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے.فل کورٹ کے سامنے معاملہ ہے اس لئے مدعا سامنے رکھا ہے،یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے اس پر جسٹس اعجاز الا احسن نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے، دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے چیف جسٹس نے کہاکہ بنیادی حقوق کے معاملے کیا پہلے ہائیکورٹ نہیں جانا چاہیے تھے ، اے جی نے کہاکہ پہلے بھی ایک مقدمہ میں کہا کہ ہائیکورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔جسٹس اعجازنے کہاکہ آ ئین سپریم کورٹ احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہاکہ اٹارنی جرنل صاحب آپ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں،ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا؟چیف جسٹس نے کہاکہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا، آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں، اے جی نے کہاکہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے،چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ کیا ہے،سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے، ہم ایکڈمک بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے؟ اگر میں بنچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جاوں تو مجھے کون روک سکتا ہے؟ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوئی، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں،ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں کے رہے ہیں؟ اے جی نے کہاکہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کی مطابقت میں ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ دو سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کے لیے بنایا گیا،دفعہ دو کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا، اے جی نے مزیدکہاکہ بالکل آپ نے فنٹاسٹک طریقے سے بتا دیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہو گا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا دوبارہ پارلیمنٹ کو لگا کہ 3 کے بجائے 17 جج بیٹھ کر بنچز کی تشکیل کا فیصلہ کریں تو وہ بدل دیں گے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے، اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نا ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نا کرتا، امریکی مثالیں دہتے ہیں تو امریکی سپریم کورٹ کی دیں،امریکی صدر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بس 20 منٹ ہیں، جب تک کوئی قانون برخلاف آئین نہ ہو تواس کو سپورٹ کرنا چائیے،اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے اور کچھ فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کی سماعت کا مکمل احوال
