نگران کابینہ میں ایک اور نئے نام کا اضافہ ہو گیا ، سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد جو سر سے لےکر پائوں تک شریف خاندان کے انتہائی وفادار مشہور ہیںکو نگران وزیر بنا دیا گیا، محکمہ ابھی نہیں دیاگیا آج وہ انوار الحق کاکڑ صاحب سے ملاقات کرینگے اور پھر انہیں محکمہ دے دیا جائے گا لیکن اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ حقیقی محکمہ شریف خاندان کی وفاداری اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ فواد حسن فواد مشہور زمانہ عطا الحق قاسمی برطرفی کیس کے ایک مین کردار بھی ہیں ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2019 میں ایک ازخود نوٹس لے کر فیصلہ دیا تھا کہ عطا الحق قاسمی صاحب کی بطور چیئرمین پی ٹی وی تقرری قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کی گئی قانون میں اس کی گنجائش نہیں۔ نواز شریف صاحب کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے کابینہ کےلئے مختلف سمریاں بھجوائیں ، تب کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کو اوکے کیا اس کے باوجود کہ عطا الحق قاسمی صاحب کو چیئرمین پی ٹی وی تعینات نہیں کیا جاسکتا تھا انہیں اس کرسی پر بیٹھا دیا گیا انہی دنوں اس کیس کی سماعت کے دوران جب اخراجات کی تفصیل پیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ میڈیکل بلوں میں وہ ادویات بھی شامل تھیں جو جنسی قوت کو بڑھاتی ہیں اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اس کا تذکرہ مناسب نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ قاسمی صاحب پر جو اخراجات آئے ہیں ان کو واپس وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔ اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کے متعلق بھی ایسا ہی حکم تھا کہ یہ وصولیاں دو ماہ کے اندر اندر ہو جانی چاہیے لیکن فواد حسن فواد صاحب نے بھی دوسروں کی طرح اپنے حصے 10فیصد واجبات کی ادائیگی نہ کی ۔ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ کےفیصلے پر عملدرآمد کرانے کےلئے ایک درخواست بھی دائر کی جو میرے اندازے کے مطابق ابھی تک وہیں پڑی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فواد حسن فواد سپریم کورٹ کے نادہندہ ہیں لیکن اب نگران وفاقی وزیر بن چکے ہیں اونچے لمبے قد کے سرخ و سفید رنگت والے فواد حسن فواد اپنے حلقہ احباب میں دوستوں کے دوست مشہور ہیں اور جب کسی کے ساتھ کھڑے ہوں تو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ قواعد و ضوابط کیا کہتے ہیں، غالبا ان کی یہی ادا بڑے میاں صاحب کو بھا گئی اور وہ ان کے مقربین خاص میں شامل ہو گئے ۔
اگر موجودہ کابینہ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ صاحب کا یہ بیان حقیقت سے قریب ترین لگتا ہے کہ یہ نگران نہیں ن لیگ کی حکومت ہے۔ احد چیمہ جو شہباز شریف کے مختار خاص تھے اور پنجاب میں شہباز صاحب کی وزارت اعلیٰ کے دوران سیاہ و سفید کے مالک تھے کابینہ میں بطور ایڈوائزر شامل ہیں اور نہایت اہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے ایک اور قریبی ساتھی اشتر اوصاف جو اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں کے جونیئر کو وزارت قانون کا قلمدان دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب کا مطالبہ کہ ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے یعنی لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے کو تسلیم کر گیا ہے، عمران خان نااہل ہو چکے ہیں، اٹک جیل کے ایک تاریک سیل میں انہیں بند کر دیاگیا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈرز کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں مجبور کر کے دوسری جماعتوں میں شامل کروایا جارہا ہے ووٹرز یہ بتاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے اور مرکزی نگران حکومت میں میاں صاحب کے قریبی ساتھیوں کو وزارتیں دے دی گئی ہیں ۔ پنجاب کی نگران حکومت بھی شریف خاندان کی وفادار لگ رہی ہے ۔ شہباز شریف صاحب بھری محفلوں میں محسن نقوی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسپیڈ ٹو کا خطاب دے چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب 21اکتوبر کو وہ وطن واپسی کےلئے تیار ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں شریف خاندان کے ایک اور قریبی ساتھی کو نگران حکومت میں شامل کر لیا جائےگا تاکہ میاں نواز شریف صاحب کے اطمینان میں اضافہ ہو اور مریم صاحبہ کو بھی تسلی ہو جائے کہ اب حالات موافق ہیں اور ان کے مطالبات پورے ہو چکے ہیں۔
نادہندہ فواد حسن فواد وزیر بن گئے۔۔
