چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے طور پر بہت سی امیدیں لے کر جا رہا ہوں، پر امید ہوں کیونکہ سپریم کورٹ نے بہت مشکل وقت کاٹ لیا ہے، ہم میں سے کسی نے بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 90 دن میں کرانے پر اختلاف نہیں کیا، مشکل اس لیے پیش آئی کہ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی، عدالت کی ذمہ داری یہ بتانا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے، عدالت کی بھی کچھ آئینی حدود ہیں جن کے پابند ہیں، سپریم کورٹ نے سوموٹو نمبر 4/2021 میں ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو واضح کیا، شدید تنقید کے باوجود اس سال 9 ماہ میں صرف ایک ازخود نوٹس لیا،دعا ہے کہ ملک میں استحکام آئے، جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا تو عدلیہ سمیت ہر ادارہ مستحکم ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ پر اربوں روپے کا ڈیم فنڈ رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کیا گیا تھا، ڈیم فنڈ گورنمنٹ کی سیکیورٹی میں ہے، ڈیمز فنڈ میں اگست 2023 میں چار لاکھ روپے کا اضافہ ہوا، اگست میں بھی فنڈز میں رقم آنے کا مطلب عوام کا سپریم کورٹ پر اعتماد ہے، ڈیمز فنڈ کے اس وقت 18.6 ارب روپے نیشنل بنک کے ذریعے اسٹیٹ بنک میں انویسٹ کیے گئے ہیں، ڈیمز فنڈ کی نگرانی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ کر رہا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ڈیم فنڈ تب تک قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک کچھ ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ خواتین ججز کے سپریم کورٹ آنے سے سپریم کورٹ مزید مضبوط ہوئی،سپریم کورٹ کے انتظامی عہدوں پر بھی خواتین کا اضافہ ہوا،سپریم کورٹ کی خاتون ترجمان میڈیا کو بہترین طریقے سے لے کر چلیں،امید ہے کہ میڈیا کے ساتھیوں کو کوئی گلہ نہیں ہوگا، درست رپورٹنگ پر میڈیا کا خیر مقدم اور غلط رپورٹنگ پر درگزر کرتے ہیں،اپنے تمام ساتھی ججز کا مشکور ہوں، جب آزاد دماغ ملتے ہیں تبھی اختلاف رائے سامنے آتا ہے، امید ہے کہ سپریم کورٹ مزید مضبوط، بااختیار اور آزاد ہو گی،میں نے نہ صرف اتفاق رائے بلکہ اختلاف رائے سے بھی بہت کچھ سیکھا۔
آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا ،اختلاف رائے سے بہت کچھ سیکھا…ڈیم فنڈ کہا گیا؟ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے بتا دیا
