رزاق کی تقرری۔۔قاضی کا پیغام۔۔منیر کا ڈنڈا

chata dervaish sami ibrahim 40

مہنگائی ، بے روزگاری ، روپے کی تیزی سے گراوٹ اور عدلیہ کے اختیارات اور فیصلوں کا مذاق پاکستان کے اہم مسائل میں سے ہیں۔ آج سپریم کورٹ نے اسسٹنٹ رجسٹرار عبد الرزاق کو رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کر دیا ، رزاق صاحب اس سے پہلے بھی قائمقام رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن یہ فیصلہ بہت اہم ہے اور اس میں کئی پیغامات چھپے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ بندیال صاحب نے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی صاحب کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک جوڈیشل آفیسر کو رجسٹرار تعینات کر دیا۔
نامزد چیف جسٹس قاضی فائز صاحب ماضی میں متعدد بار چیف جسٹس صاحب کو لکھے گئے خطوط میں اس نکتے کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ رجسٹرار کا سپریم کورٹ جوڈیشل آفیسر ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کسی سرکاری ملازم کو رجسٹرار کا عہدہ دینا ایک طرح سے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ تصور کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات کو بھی جوڈیشل آفیسر کے سپرد ہی کرنا چاہیے لیکن ماضی میں مضبوط سیاسی حکومتیں ہمیشہ کسی وفاقی ملازم کو رجسٹرار لگوانے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ قاضی فائز عیٰسی صاحب کیوں جوڈیشل افسر کو رجسٹرار لگوانا چاہتے تھے ۔ شاید اس تقرری کے ذریعے انہوں نے ملک کو چلانے والی انتظامی قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ عدلیہ ، انصاف اور قانون کے معاملات میں وفاقی ملازمین کی مداخلت نہیں چاہیے۔ ہم ان معاملات کو بغیر کسی مداخلت کے بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں اور عدلیہ کے اختیارات اور فیصلوں پر کسی طرح کا بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا۔
رزاق صاحب بہت نفیس انسان ہیں ، سپریم کورٹ کے درودیوار سے پوری طرح واقف ہیں عدالت عظمیٰ کی اہمیت اور موجودہ چیلنجز سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ یقیناً بطور رجسٹرار وہ اپنے عہدے سے ماضی کی طرح انصاف کرینگے اور جس چیز کی کمی رہی ہے اس کو پورا کرینگے۔ ان کی تعیناتی سے انتظامی قوتیں بہرحال اب سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق ان اطلاعات سے محروم ہو جائیں گی جن کو وہ اپنے منصوبوں کو کامیاب کرانے کےلئے استعمال کرتی تھیں۔ لگتا ہے قاضی فائز عیٰسی عدالتوں کے فیصلوں کی دھجیاں اڑائے جانے کے عمل سے خوش نہیں ہیں۔ جہاں وہ اپنے دوسرے ٹارگٹس کے حصول کےلئے کام کرینگے وہیں پر وہ عدلیہ کے اختیارات اور فیصلوں کی رٹ بحال کرانے کےلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔
دوسرا اہم مسئلہ روپے کی قیمت میں کمی کا ہے جس نے ہماری معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کاروباری افراد سے ملاقاتیں کیں اور خاص طور پر کرنسی کاروبار سے منسلک افراد کو واضح کیا کہ ڈنڈے کااستعمال کیا جائےگا۔ کرنسی کی اسمگلنگ کو روکیں، قیاس آرائیوں کی بنیاد پر روپے کی قیمت میں کمی کے رجحان کو ختم کریں پھر اس کے بعد کرنسی مارکیٹس میں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ڈالرز لے کر پہنچ گئے اور ان ڈیلرز کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جو کرنسی اسمگلنگ میں ملوث تھے اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر روپے کی قیمت میں ردوبدل کے ذمہ دار ہیں۔
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں کمی کا سلسلہ پچھلے دو تین دنوں سے جاری ہے،ا نٹربینک ریٹ میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن عمومی صورتحال آہستہ آہستہ قابو میں آتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا قیمتوں میں کمی کا تسلسل برقرار رہ پائے گا؟ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی اور کرنسی کا کاروبار کرنیوالے بہت سے منی چینجرز کا خیال ہے کہ روپے کی قیمت میں بہتری زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی کیونکہ خفیہ طور پر کاروبار میں ملوث افراد جو اصل مسئلے کے ذمہ دار ہیں وہ ابھی قانون کی گرفت سے دور ہیں۔
مارکیٹس میں بیٹھے منی چینجرز تو پہلے ہی ٹیکس بھی دیتے ہیں اور کاروبار کی تفصیلات بھی اسٹیٹ بینک کو فراہم کرتے ہیں اور ان کے کاروبار کے مکمل اعداد و شمار اسٹیٹ بینک کو پہنچتے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ منی چینجر کرنسی کے کاروبار کا صرف دس فیصد ہیں اور نظر نہ آنے والے کردار مارکیٹ سے ہٹ کر اپنے ٹھکانوں سے یہ کاروبار کرتے ہیں، ضرورت ان کو پکڑنے اور روکنے کی ہے۔ پاکستان میں انویسٹمنٹ لانے کےلئے بھی آرمی چیف کی کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن باہر سے پیسہ لانے والے افراد تھوڑے کنفوژ ہیں کہ ان کی سرمایہ کاری کو قانونی تحفظ کس طرح فراہم کیا جائےگا جب تک سرمایہ کار کو اعتماد نہ ہو کہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہو سکتی اور اس کا منافع اس کی انویسٹمنٹ کے ساتھ محفوظ رہے گا وہ کاروبار کےلئے نہیں آتا۔ آنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہو جائے گا کہ اس سوال کا جواب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کس طرح دیتی ہے۔ بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں