49 کروڑ کرپشن کرنیوالا نیب سے بچ جائے یہ سنجیدہ معاملہ ہے، چیف جسٹس

supreme-court-of-pakistan3 18

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیل نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت ے دوران ریمارکس دیئے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا اوربے نامی جائیداد رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا اب مسئلہ رقم کابن گیاکہ وہ کرپشن سے آئی یا نہیں، ایسے میں زائد اثاثوں کوجرم کی کیٹگری سے نکال دیں یہ تواحتساب کی ریڑھ کی ہڈی تھی ، 49کروڑ کرپشن والا نیب سے بچ کر آزاد ہوجائے، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، بے نامی کیخلاف کارروائی احتساب کا مرکز ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ 25 کروڑعوام کے منتخب نمائندوں نے قانون سازی کی ہم 17غیرمنتخب لوگ صرف آرٹیکل 8 کے تحت ہی قانون سازی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیا گیا تھا، قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے، خود جسٹس منیب نے ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ماضی سے اطلاق ہونے والے قوانین کالعدم نہیں قرار دیے جا سکتے.
سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ حمید الرحمٰن مشرقی پاکستان کے سیاست دان تھے جنہیں پبلک آفس سے پرائیویٹ کال کرنے پر سزا دی گئی تھی ٹرائل کیلئے تفتیشی افسران اورجج مغربی پاکستان سے جاتے تھے ، یہ حالات مشرقی اورمغربی پاکستان کوآمنے سامنے لائے وکیل نے مزید کہاکہ ماضی میں احتساب آرڈیننس اورنیب قوانین میں ترمیم کا اطلاق 1985 سے کیا گیا ہے چیف جسٹس نے ایمنسٹی اسکیم اور بے نامی دارسے متعلق پوچھتے ہوئے کہاکہ نیب ترامیم میں بینامی دارکی تعریف تبدیل کردی گئی ،اب پراسیکیوشن ثابت کرے کہ کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی یا نہیں، نیب ترامیم سے استغاثہ پرغیرضروری بوجھ ڈالا گیا ہے بے نامی کیخلاف کارروائی تواحتسابی عمل کا مرکزہے، کم ازکم یہ توطے ہونا ضروری ہے اثاثے کرپشن سے تونہیں بنائیں گے.
مخدوم علی خان نے خورشید شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ نیب نے لوگوں کیلاکرزتوڑے گھروں میں گھسے اورپھرملا بھی کچھ نہیں ، چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے پوچھا کہ جائیداد دبئی میں ہوتوسراغ کیسے لگایا جائے گا وکیل نے بتایاکہ اب توسوئٹزرلینڈ سے بھی معلومات مل جاتی ہیں، کرپشن ثابت کرنے کے لیے صرف بے نامی دار کا الزام لگا دینا کافی نہیں ہے، پراسیکیوشن کو ثابت بھی کرنا ہو گا کہ بے نامی دار ہے یا نہیں، نیب نے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور لاکرز توڑے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ لگتا ہے اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سنجیدہ جرم نہیں رہا.
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 1999سے لیکراب تک پی آئی اے اور بجلی سپلائی کمپنیوں پبلک سیکٹراداروں کی کارکردگی دیکھیں کو دیکھ لیں دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹردیکھیں ،49 کروڑکے ملزم کا کیس ہی ختم ہوجائے یہ بہت سنجیدہ غلطی ہے،دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ذرائع آمدن اثاثوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں، اگر ذرائع آمدن بھی ملزم نے نہیں بتانے تو یہ جرم ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔خواجہ حارث نے کہا کہ جو جرائم نیب قانون میں درج ہیں وہ کسی اور قانون کا حصہ نہیں ہیں، نیب ترامیم سے سیکڑوں افراد کو کلین چٹ دی گئی، نیب ترامیم کے بعد 50 کروڑ سے کم پلی بارگین کرنے والا درخواست دیکر صاف شفاف ہوجائے گا، ترامیم میں کہیں نہیں لکھا کہ نیب سے واپس ہونے والا مقدمہ کہاں چلے گا، پچاس کروڑ سے کم والا پیسے واپس لیکر نیب کے اختیار سے ہی نکل گیا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب کیسز کے لیے 50 کروڑ روپے کی حد اس لئے مقرر کی گئی کیونکہ مختلف عدالتوں کی آبزرویشنز دی جاچکی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم 1999 سے اب تک پبلک سیکٹر میں دیکھیں تو گرواٹ نظر آئے گی، پی آئی اے کو دیکھ لیں، بجلی کی ترسیلاتی کمپنیوں کو دیکھ لیں، لائن لاسز پورے ملک میں 40 فیصد تک ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ 2018 سے 2021 تک نیب تفتیش اور ریفرنسز کی مد میں 18 ارب روپے خرچ ہوئے، قانون کا ماضی سے اطلاق کرنے سے عوامی پیسے ضائع ہوں گے، عوامی پیسے کا ضیاع مفاد عامہ کے تحت آتا ہے، نیب ترامیم سے پلی پارگین کا پورا عمل روک دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین کے عمل کو پارلیمنٹ نے اس لئے روکا کہ کچھ پلی بارگین کے کیسز میں دباؤ کا پہلو موجود تھا، 25 کروڑعوام کے منتخب نمائندوں نے قانون سازی کی ہم 17غیرمنتخب لوگ صرف آرٹیکل 8 کے تحت ہی قانون سازی کا جائزہ لے سکتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ ان ترامیم کے پیچھے پارلیمنٹ کی سوچ کیا رہی ہے،ہوسکتا ہے پارلیمنٹ نے معاشی صورتحال کے پیش نظریہ ترامیم کی ہوں ، مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ 2018ء سے2021 تک نیب نے تفتیش پر18ارب روپے خرچ کئے پلی بارگین میں اربوں روپے آرہے تھے ۔اس موقع پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج جمعہ تک کے لئے ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں