اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم پرنس محمد سلمان ہمارے خطے کے دورے پر آرہے ہیں، ان کی آمد کا بنیادی مقصد بھارت میں ہونیوالی جی 20 سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنا ہے یہ دو روزہ کانفرنس 9 اور 10ستمبر کو دہلی میں ہو رہی ہے۔ پرنس محمد بن سلمان کانفرنس میں شرکت کےلئے 10 تاریخ کو بھارت پہنچیں گے اور 10ستمبر کو کانفرنس ختم ہونے کے بعد ایک دن 11ستمبر کو بھارت میں قیام کرینگے، اپنے قیام کے دوران وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر حکام سے ملاقات کرینگے۔
سعودی عرب اور بھارت کے بیچ گزشتہ کئی سالوں سے باہمی تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے کو مل رہی ہے اور کئی معاہدے بھی کئے جاچکے ہیں ۔ محمد بن سلمان پاکستان بھی روکیں گے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں پر ان کا قیام 4 سے 6گھنٹے کا ہوگا ، اپنے قیام کے دوران وہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں کرینگے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ان ملاقاتوں میں سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اور خصوصی طور پر آئل ریفانری کے قیام پر پیشرفت کا امکان ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کا دوست رہا ہے اور ہر برے وقت میں پاکستان کی مدد کےلئے تیار رہا ہے۔
90کی دہائی میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور ہم پر بین الاقوامی پابندیاں لگا دی گئیں تو یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے کریڈٹ پر تین سال تک ہمیں تیل فراہم کیا، جب عمران خان وزیراعظم تھے تو محمد بن سلمان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سعودی عرب میں پاکستانیوں کا سفیر ہوں اور پھر پاکستانی حکومت کی کوششوں کی وجہ سے کئی سو پاکستانی جو سعودی عرب کی جیلوں میں بند تھے سعودی ولی عہد کے خصوصی احکامات کے انہیں پاکستان پہنچایا جائےگا لیکن پاکستان میں صرف چند گھنٹوں کا قیام اور بھارت میں دو دن تک سعودی ولی عہد کی موجودگی ایک بات کا اظہار تو کرتی ہے کہ یقینا ہماری اہمیت ہمارے دوستوں کی نظر میں کم ہوئی ہے اس کی وجہ شاید ہمارے اندرونی حالات ہیں۔ ہمارے نظام کی منافقتیں، آئین پر عملدرآمد نہ کرنا اور سیاسی نظام میں شفافیت نہ ہونا اور ہر وقت امداد کےلئے کشکول تھامے رکھنا ہیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان اسلامی دنیا کو لیڈرشپ فراہم کرتا تھا باوجود اس کے کہ ضیا الحق ایک ڈکٹیٹر تھا ، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی انہیں بھی اسلامی دنیا کی پذیرائی حاصل تھی اور ذوالفقار علی بھٹو تو باقاعدہ نہ صرف اسلامی بلکہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کے لیڈر بن کر سامنے آئے۔ آج محمد بن سلمان صرف چند گھنٹے پاکستان میں قیام کرینگے اور اس کا بھی فیصلہ شاید انہوں نے اس لئے کیا ہوگا کہ اگر وہ بھارت جائیں اور پاکستان کی سرزمین کو ٹچ نہ کریں تو اس سے غلط پیغام جائے گا ۔ ہمارے حکمرانوں کی اپنے اقتدار کےلئے دوست ممالک سے بار بار مداخلت کی درخواست بھی ہماری عزت میں کمی واقع کرتی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف صاحب پچھلے مہینے کئی دن تک سعودی عرب میں موجود رہے تاکہ پرنس محمد سلمان سے ملاقات ہو جائے اور وہ پاکستان میں اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کےلئے اپنے مرضی کے نگران لگوا سکیں لیکن انہیں ملاقات کےلئے وقت نہیں ملا اور اس مرتبہ سعودی عرب نے پاکستان کی مالی امداد بھی آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد کی ، اس سے پہلے بار بار ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں آتی رہی کہ سعودی عرب پاکستان میں استحکام چاہتا ہے اور بار بار یہ پیغام سفارتی طور پر پہنچایا گیا کہ گھر کو ٹھیک کریں ۔ شفاف انداز میں سیاسی نظام کو لے کر چلیں اور جو عوامی طور پر مقبول ہے اقتدار میں آنے کا جس کا حق بنتا ہے اسی کو حکومت دیں لیکن ہمارے ہاں ذاتی عناد ، انا اور پیسہ کمانے کی طلب نے ان پیغامات کو نظر انداز کیا ۔
محمد بن سلمان ایک صاحب بصیرت ہیں سعودی عرب کو جدید ریاست بنانے کےلئے اور مغرب میں اس کی اصلی حیثیت دلوانے کےلئے انہوں نے سپورٹس کا سہارا لیا، فٹبال کے بڑے بڑے پلیئرز سعودی کلب میں کھیلنے کےلئے منگوائے، بھارت کی فلم انڈسٹری کے سٹارز کو اور ہالی ووڈ کے سنگرز کے کنسرٹ کروائے ہیں ، جدید ترین نیوم سٹی بنا رہے ہیں اور سعودی عرب کو ایک ایسے مقام پر لے کر جارہے ہیں جس کا چند سال پہلے تک تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنے نظام کو درست نہیں کیا، اس قابل نہیں بنایا کہ دوستوں کی مدد سے اپنی اکنامی کو بہتر بنا سکیں ، سرمایہ کاری کی بجائے امداد کو ترجیح دی اور اب ہمارا اسٹیٹس بھی ایک ایسے دوستوں کی طرح رہ گیا ہے جو روزانہ زندگی چلانے کےلئے مالی امداد کا تقاضا کرتے ہیں۔
محمد بن سلمان ۔۔ پاکستان اور بھارت
