جیل۔۔ہینڈسم ،عمران خان۔۔ سرگوشیاں

chata dervaish sami ibrahim 32

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ان کے وکلا اور فیملی اراکین کی ملاقاتیں عدالتی حکم سے ہونا شروع ہو گئیں، ملاقات کے بعد آنے والے متعدد وکلا نے اپنے الفاظ میں عمران خان صاحب کی حالت کے بارے میں گفتگو کی ، ان کا سیاست کے بارے میں اس وقت کیا نقطہ نظر ہے اس پر بھی گفتگو ہوتی رہی۔ میری اس حوالے سے ڈاکٹر بابر اعوان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ، میں نے ڈاکٹر بابر اعوان سے پوچھا عمران خان کیسے ہیں؟ آپ کی ملاقات ان سے کیسی رہی، تو ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان بہت اچھے موڈ میں ہیں اور ہر طرح کی جنگ لڑنے کےلئے تیار ہیں۔ ملاقات سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں ہوئی جب عمران خان پہنچے تو ان کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل بھی آئے، جب عمران خان نے مصافحہ کےلئے ہاتھ بڑھایا تو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے انہیں ہاتھ ملانے سے منع کیا اور کہا یہ جیل قواعد کے خلاف ہے۔ عمران نے میری طرف دیکھا اور کہا ، کیا یہ قواعد کے خلاف ہے تو میں نے کہا ہرگز نہیں، سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس اطلاعات پوری ہیں، اس پر عمران خان صاحب مسکرائے اور کہا ٹھیک ہے
اس کے ساتھ ہی وہ بغل گیر ہو گئے انہوں نے کہا کہ میں ہاتھ ملانے والوں میں سے نہیں جھپی ڈالنے والوں میں سے ہوں۔
اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو عمران نے اس بات پر بڑی ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ان کے ساتھ ملاقات کرنے والے چند افراد نے ان کی حالت کے حوالے سے مناسب گفتگو نہیں کی، خان کاکہنا تھا کہ میری کتنی بری بھی حالت ہوئی، مجھ پر کتنی بھی سختیاں کی جائیں میں کسی بھی جگہ جاکر ہمدردی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ میں کسی جگہ جاکر یہ درخواست نہیں کروں گا کہ مجھے سہولیات دی جائیں، میں اپنی قوم کےلئے ایک جدوجہد کر رہا ہوں ، پاکستان کی ترقی کےلئے، پاکستان کی عوام کی حقیقی آزادی کےلئے جدوجہد کر رہا ہوں اس کےلئے ہزار سال بھی کوشش کرنا پڑی تو کروں گا، جتنا عرصہ مجھے کوئی پابند سلاسل کرنا چاہتا ہے کر لے میں نہ جھکوں گا نہ کوئی سمجھوتہ کروں گا اور حقیقی آزادی سے مراد میں چاہتا ہوں پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہو۔ سب آئین کے نیچے اپنی اپنی حدود میں کام کریں۔ میرا کوئی کسی سے ذاتی جھگڑا نہیں،۔ اس ملک کے لوگوں کی خاطر جان بھی دینا پڑی تو حاضر ہوں، جن لوگوں نے میری حالت بارے غلط قیاس آرائیاں کی ہیں کہ میرے لئے ہمددردی کسی کے دل میں پیدا ہو ان سے آئندہ ملاقات نہیں کروں گا۔ میری طرف سے عوام کو کہہ دیں کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہے اور آگے بھی کھڑا رہے گا آپ اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں اور یہ آپ کی اور اس ملک کی ترقی کا معاملہ ہے اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔
باقی گفتگو ڈاکٹر بابر اعوان نے میرے ساتھ شیئر نہیں کی ، میں نے ان سے کہا ، کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا وزن کم ہو گیا ہے ، تو بابر اعوان نے کہا کہ وزن کم ہو گیا ہوگا لیکن سچی بات مجھے وہ پہلے سے توانا نظر آئے۔ وہ پاکستانیوں کی آزادی کی جنگ لڑنے کےلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔
کچھ ذرائع نے مجھے یہ بتایا کہ جو ڈاکٹرصبح اور شام میں عمران خان کا معائنہ کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر ان کے علاج کےلئے نہیں بلکہ نفسیاتی معائنے کےلئے جاتے ہیں وہ حکام کو یہ رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ کیا عمران خان نفسیاتی طور پر کمزور ہوا اس کے اندر کوئی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا ہے، کیا جیل کی سختیوں سے گھبرا کر کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ کرنے کےلئے تیار ہے ، لیکن اپنی ہر رپورٹ میں وہ یہ لکھتے ہیں کہ عمران خان نے حوصلے اور اس کے قوت ارادی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے فیصلے کے بعد امکان کم ہے کہ عمران خان باہر آئے لیکن لوگوں کی آنکھوں میں عمران کے نام پر پیدا ہونیوالی چمک کو جب دیکھتا ہوں اور ڈاکٹر بابر اعوان کی اس گفتگو کو سامنے رکھتا ہوں تو لگتا ہے دونوں طرف سے محبت، عشق اور ساتھ جدوجہد کرنے کی آگ بھونجے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن ابھی عمران خان مخالف قوتوں کےلئے کامیابی کی خبر نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں