شہریار آفریدی کی رہائی پر ایڈووکیٹ جنرل افسردہ۔۔کیا رہائی کے بعد کوئی جلسہ کر دیا؟ چیف جسٹس برہم

Sheryar-afridi-bail-case 14

اسلام آباد ہائی کورٹ:شہریار آفریدی کیس میں سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف ڈی سی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکی اپیل پر تو رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے، سرکاری وکیل نے کہا کہ تھری ایم پی او کا قانون موجود ہے اور قانون کے مطابق ہی گرفتاریاں کی گئی ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آفس کا اعتراض یہ ہے کہ ابھی کیس کا سنگل بنچ نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آبادنے کہا کہ عدالت نے جو آرڈر پاس کیا اس میں مکمل ریلیف دے دیا ہے ، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے سنگل بنچ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ ابھی ایم پی او کو کالعدم تو نہیں کیا بلکہ کچھ شرائط عائد کیں ہیں ، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آبادنے کہا کہ شہریار آفریدی کو رہا تو کر دیا گیا ہے ، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی سنگل بنچ کا عبوری آرڈر ہے ، اور انہوں نے اپنے آرڈر میں شہریار آفریدی کو رہا کرتے کچھ شرائط عائد کیں ہیں ، سنگل بنچ نے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز پر 28 اگست فرد جرم کی تاریخ مقرر کر رکھی ہےڈی سی عرفان میمن نے فرد جرم کی کاروائی رکوانے کے لیے اپیل دائر کی ہےسنگل بنچ نے حتمی فیصلہ نہیں دیا تو آپکی اپیل کیسے قابلِ سماعت ہے؟ جب آرڈر معطل ہو گا تو ساتھ رہائی ہی ہو گی، بندہ جیل میں تو نہیں رہ سکتا، جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ سنگل بنچ نے ایم پی او کی تمام پابندیاں تو رہائی کے ساتھ بھی لگا دی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا شہریار آفریدی نے رہائی کے بعد کوئی جلسہ یا توڑ پھوڑ کر دی ہے؟ جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ عدالت نے پابندیاں عائد کی ہیں کہ میڈیا سے بھی بات نہیں کر سکتا، چیف جسٹس عامر فاروق نےکہا کہ کیا رہائی کے بعد کوئی جلسہ کر دیا؟ یا تو آپ یہ بتائیں کہ انہوں نے رہائی کے بعد نقص امن کو نقصان پہنچایا، ابھی تو عدالت یہ دیکھ ہی نہیں رہی کہ فیصلہ درست تھا یا غلط، آپ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دیں، کیوں نہیں کر رہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہماری اپیل کو نمبر لگا کر مرکزی کیس کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر کر دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیوں نمبر لگا دیں؟ کوئی وجہ تو بتا دیں، کوئی قانون بتا دیں، آپکی بات مان لیں تو ہر عبوری حکم کے خلاف اپیلیں آنے لگ جائیں گی، عدالت نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی انٹرا کورٹ اپیل پر اعتراضات بر قرار رکھے ہیں،ریکارڈ کے مطابق ہائیکورٹس کے بار بار آرڈرز ہیں اور بار بار گرفتاریاں ہیں ، عدالت نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اپیل پر اعتراض ختم نہیں کئےایڈوکیٹ جنرل نے شوکاز نوٹس معطل کرنے کی استدعاکی، چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے ہم نوٹس کو معطل کریں حالانکہ ابھی تو کیس زیر سماعت ہے، کل کو اگر وہی درخواست خارج ہوتی ہے تب کیا ہوگا ؟ اس طرح کے آرڈرز کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ خطرناک نتائج ہو، عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں