عدالت پہلے ہی الجھی ہوئی..معاشی معاملات میں مت الجھائیں۔۔سپریم کورٹ برہم

Supreme-courf-of-pakistan 33

سپریم کورٹ،آئینی حد سے زیادہ قرضے لینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار میاں عبدالروف نے کہا کہ سال 2020 میں ملک میں بےحد قرضے لینے سے متعلق آئینی درخواست دائر کی،کیس میں فریق حفیظ شیخ اور رضا باقر تو بھاگ چکے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005 پر عملدرآمد نہیں کیا گیا؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ حکومتوں نے حد سے زیادہ قرضے لے کر آئینی خلاف ورزی کی۔

آخر ملک پر اتنا قرض کیوں لیا گیا؟ چیف جسٹس کا سوال

جسٹس اطہر من اللہ نے کیس میں ریمارکس دئیے کہ ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہائیکورٹ جانا چاہیے، ملک شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے اٹھائے گئے نکتے میں وزن ہے، آخر ملک پر اتنا قرض کیوں لیا گیا؟ اسٹیٹ بنک کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھیں کہ 1947 سے آج تک سالانہ کتنے قرض لیے گئے، ملک کو ابتر معاشی صورتحال کا سامنا ہے، یہ بہتر وقت نہیں ہے کہ عدالت اس قسم کی درخواست کو سنے۔

آپ نے جو تجاویز دینی ہیں وہ وفاقی حکومت کو دیں، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو تجاویز دینی ہیں وہ وفاقی حکومت کو دیں، سپریم کورٹ کو معاشی مسائل میں مت الجھائیں، عدالت پہلے ہی بہت سے معاملات میں الجھی رہی ہے۔وفاقی حکومت ہی معیشت سے متعلق معاملات دیکھنے کا متعلقہ فورم ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ درخواست گزار ڈاکٹر زبیر کو کہیں کہ وہ معاشی معاملات پر اخبار میں لکھ کر عوام کو شعور دیں، عدالت کی وکیل کو درخواست گزار ڈاکٹر محمد زبیر سے ہدایات لینے کی ہدایت کر دی۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں