دیکھنا جعلی استعفیٰ نہ آجائے۔۔

chata dervaish sami ibrahim 36

صدر پاکستان کے ایک ٹوئٹ نے وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ جعلی قوانین اور غیر آئینی حکومتوں کے ذریعے پاکستان کے 24کروڑ عوام کو غلاموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ صدر مملکت نے آج اللہ کو گواہ بنا کر یہ کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ملٹری ایکٹ کے ترمیمی بلوں پر دستخط نہیں کئے، میں اپنے عملے سے بار بار کہتا رہا کہ میں ترامیم سے متفق نہیں ان کو واپس بھجوا دیا جائے اور ہمیشہ یہی کہا گیا کہ آپ کے احکامات پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے مگر اب میڈیا کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ مجھ سے منسوب کیا گیا کہ میں نے ان قوانین کے بلوں کو منظور کر دیا ہے اور اپنے دستخطوں سے ان کو واپس بھجوا دیاگیا ہے لیکن یہ بات قطعی طور پر غلط ہے ، میں نے کوئی دستخط نہیں کئے یہ سب جھوٹ ہے میں ان لوگوں سے شرمندہ ہوں جو اس کی زد میں آئیں گے۔
جیسے ہی صدر نے ٹوئٹ کیا تو پی ڈی ایم کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قائدین اور ایک مخصوص صحافتی گروپ نے بجائے اس کے کہ وہ معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس کی مزید تحقیق کی جانب بڑھتے الٹا صدر مملکت سے ہی سوال کرنے شروع کر دئیے کہ یہ خبر تو کل سے ہی چل رہی ہے آپ کو آج کیسے پتہ چلا، یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ صدر مملکت استعفےٰ دے دیں۔ یہ چابی والے گوڈے ٹی وی سکرین پر بھی ناچ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اپنی زہر آلودہ گفتگو سے معاملے کی سنگینی کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
لیکن معاملہ فہم سنجیدہ افراد حیرانگی سے ساکت ہو گئے ہیں کہ اب اس ملک میں صدر مملکت کے جعلی دستخط سے بلوں کو منظورکروایا جارہا ہے ، آرمی ایکٹ میں ترامیم اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم سے انتظامیہ کو وسیع اختیارات حاصل ہو رہے تھے وہ کسی بھی شخص پر یہ الزام لگا کر کہ وہ پاکستانی اداروں، حکومت، فوج اور پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے گرفتار کر سکتے ہیں ۔ لیکن بڑا سوال یہ تھا کہ اس بات کا تعین کون کریگا کہ اگر انتظامیہ اپنی من مانی کرتی ہے اور لوگوں کو اس بل کے تحت اٹھا کر لے جاتی ہے تو اس بات کا تدارک کون کریگا؟یہ بل صحافیوں اور وہ لوگ جو حکومتی پالیسی پر بات کرتے ہیں ان کے سروں پر تلوار لٹکانے کے مترادف تھا۔
انٹیلی جنس ایجسینز سے منسلک ریٹائرڈ افراد سے متعلق یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ پانچ سال سے پہلے کسی بھی معاملے پر زبان نہیں کھول سکیں گے صرف ایک گنجائش تھی کہ اگر وزیراعظم انہیں اجازت دیں ۔ صدر مملکت ان سمیت دیگر کئی ترامیم پر متفق نہیں تھے اس لئے انہوں نے عملے سے کہا کہ اس بل کو واپس بھیج دیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔
ملک اس وقت ایک آئینی بحران میں ہے ، صدر کا پاکستانی عوام کے سامنے حلف نامہ آچکا ہے انہوں نے ان قوانین پر دستخط نہیں کئے اب حکومت کا اصل کام یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ان جعل سازوں کا پتہ چلائے، قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرے لیکن اس وقت نگران حکومت کے ترجمان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیڈران ایوان صدر کی جانب چڑھ دوڑے ہیں۔ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے انہیں کسی عدالت میں طلب نہیں کیا جاسکتا۔ عہدے سے ہٹانے کےلئے تحریک عدم اعتماد کا منظور کروانا ضروری ہے لیکن کیونکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اس لئے اس بات کا امکان نہیں اس لئے ٹی وی چینلز پر صدر کے خلاف ایک پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان حالات میں صدر مملکت کو نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں کوئی ان کے جعلی استعفےٰ پر جعلی دستخط کر کے جاری نہ کر دے۔
24کروڑ لوگ جو اس وقت پاکستان کی مقبول ترین جماعت کو دیوار کے ساتھ لگائے جانے کےلئے انتظامیہ کے غیر قانونی ہتھکنڈوں کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کر رہے تھے آج اس بات سے مکمل آگاہ ہو چکے ہیں کہ نظام جھوٹ ، فراڈ اور منافقت پر مبنی ہے جو کچھ کہا جارہا ہے جو کچھ دکھایا جارہا ہے اس کا حقیقت سے تعلق نہیں اور جو لوگ صدر سے کہہ رہے ہیں کہ کل سے مین اسٹریم میڈیا پر خبر چل رہی تھی انہیں پتہ نہیں چلا اور انہیں پتہ کیوں نہیں چلا ان کےلئے عرض ہے کہ سنجیدہ لوگ اب جھوٹا پراپیگنڈا اور جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے والے ان چینلز کو نہیں دیکھتے۔ ان کا بڑا انحصار سوشل میڈیا پر ہے جو اس اشرافیہ کے سینے پر روزانہ ڈنگ مارتا ہے۔ اب بھی وقت ہے سمجھ جائیں اور اپنے راستے کو درست کر لیں ورنہ آنے والا وقت کسی کے قابو میں نہیں رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں