روس سے تیل آنا بند کیوں ہوا؟ اہم وجوہات سامنے آگئیں

Oil-Refanry 23

اسلام آباد:پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) نے مبینہ طور پر روسی خام تیل کو زیادہ مقدار میں پروسس کرنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے جو کہ مقامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے لیے سستے روسی خام تیل پر انحصار بڑھانے کی سابقہ حکومت کی کوششوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی وجہ سے یورپی منڈیوں میں اس کے تیل پر عائد پابندی کی وجہ سے رعایت پر دستیاب روسی تیل کی پروسیسنگ غیر ملکی کرنسی کی قلت اور پاکستانی ریفائنریز و بندرگاہوں کی محدود صلاحیت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ مقامی ریفائنریز روسی خام تیل سے اتنا پیٹرول اور ڈیزل نہیں نکال سکتیں جتنی کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خام تیل سے پیدا کرتی ہیں۔روس سے خام تیل کا پہلا کارگو جہاز جون میں پاکستان پہنچا تھا اور اس کی ادائیگی یوآن میں کی گئی تھی۔روس سے یومیہ ایک لاکھ بیرول خام تیل حاصل کرنا ہدف تھا جو کہ 2022 میں پاکستان کی مجموعی ضرورت ایک لاکھ 54 ہزار یومیہ درآمدات کا تقریباً دو تہائی ہے۔روس سے آنے والی پہلی کھیپ فوری طور پر صارفین کے لیے کوئی بچت کا باعث نہیں بنی، اس کے بجائے قومی اسمبلی کی تحلیل سے صرف ایک ہفتہ قبل سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا۔ذرائع نے بتایا کہ پی آر ایل کو روسی خام تیل کی پروسیسنگ سے قابل ذکر مالی فائدہ نہیں ملا۔ذرائع نے مزید کہا کہ خام تیل درآمدات میں اضافے کا اقدام مبینہ طور پر پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے صارفین کو خوش کرنے کے لیے ایک ’سیاسی اسٹنٹ‘ تھا۔پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے سینئر ایگزیکٹوز نے معاملے پر رد عمل دینے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں