کوئٹہ(بیورورپورٹ) بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے 1980 کی دہائی میں کیڈٹ کالجز کی بنیاد ڈالی گئی اور مستونگ کے مقام پر 1987 میں صوبے کا پہلا کیڈٹ کالج فعال کیا گیا۔
اس کالج کی مقبولیت اور صوبے کی بڑھتی ہوئی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی کیڈٹ کالجز قائم کیے گئے۔ اس وقت پشین، قلعہ سیف اللہ، کوہلو، جعفرآباد، نوشکی، پنجگور، آواران اور خاران میں بوائز کیڈٹ کالجز قائم ہیں جبکہ تربت اور کوئٹہ میں گرلز کیڈٹ کالج بھی قائم کیے گئے ہیں جو صوبے میں لڑکیوں کے تعلیم کے لئے ایک قابل رشک اقدام ہے۔
ایک طرف صوبائی محکمہ تعلیم ان کیڈٹ کالجز کی بلڈنگ اور یہاں زیر تعلیم بچوں پہ کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے گورنمنٹ سکولوں اور کالجز کی حالت قابل رحم ہے اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ان کیڈٹ کالجز کو بنانے کا مقصد پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کیڈٹ کالجز مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک مستقل سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ان کیڈٹ کالجز کے ملازمین بے چینی، بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جیسے ہی کسی دوسرے شعبے میں کوئی مستقل آسامی نکلتی ہے تو کیڈٹ کالجز کے ملازمین، کیڈٹ کالج کو خیرباد کہہ کر چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے طلباء کا تعلیمی سفر ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے 2020 میں کیڈٹ کالجز کا بل پاس کیا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود بھی محکمہ کالجز نے سروس رولز اور سروس سٹرکچر بنانے پہ کوئی توجہ نہیں دی۔
کیڈٹ کالجز کے ملازمین کے لئے کسی قسم کے سروسز رولز، پروموشن پالیسی اور بھرتی کا کوئی واضح طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے کیڈٹ کالجز میں کام کرنے والے اساتذہ، لیکچرار اور انتظامی اسٹاف سخت بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ اگرچہ 2020 میں صوبائی اسمبلی نے کیڈٹ کالجز بل پاس کیا لیکن بل پاس ہونے کے باوجود بھی سروسز رولز بنانے کے لیے کسی قسم کا کوئی کام نہیں ہوا۔
میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے حالیہ امتحانی نتائج میں کوئی بھی کیڈٹ کالج پہلی تین پوزیشنوں میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کر سکا۔
یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں پہ حکومت بلوچستان کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن یہ کالجز کوئی متاثر کن کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس کی وجہ سے ایک درجن سے زائد تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ اور اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ یہ ناکامی بیوروکریسی اور پالیسی سازوں کی طرف سے ہے یا پھر کیڈٹ کالجز کے انتظامی اور تعلیمی امور چلانے والوں کی طرف سے ہے۔
عوامی، سماجی اور سیاسی حلقوں نے گورنر بلوچستان اور وزیراعلٰی بلوچستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد کیڈٹ کالجز میں کام کرنے والے ملازمین کے لئے سروس سٹرکچر بنا کر ان ملازمین کی بے چینی کو ختم کیا جائے اور ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء اور پڑھانے والے اساتذہ کے مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں اور ملک و قوم کے قیمتی سرمائے کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔
بلوچستان:کیڈٹ کالجز کا سروس سٹرکچر نہ بننے کی وجہ سے ملازمین بے چینی کا شکار
