مائے نی میں کنوں آکھاں!

63

تحریر : انعم ملک

آج صبح ہی صبح میرا سامنا ایک ایسےشخص سے ہوا جو کہ بیچ سڑک میں بیٹھا،اپنے ہاتھ میں پینٹ کا برش تھامے،مزدوری ملنے کی آس میں بےیارومددگاربیٹھا تھا۔وہ اپنی آنکھوں میں ناامیدی لیئے، ہاتھ میں بجلی کا بل تھامےکسی گہری سوچ میں غرق،بے بس نظر آرہا تھا۔ وہاں راہ گزرتے بھکاری بھی حیرت زدہ ہوکر اس شخص کی بدحالی کو یوں دیکھ رہے تھے، گویا یہ سوچ رہے ہوں کہ زیادہ دکھ کا مارا کون ہے، وہ خودیا یہ بدنصیب شخص۔۔۔
یہاں ایک سوال ذہن میں گردش کرتاہے کہ اس شخص کی بدقسمتی ہے کیا؟ غریب ہونا یا ایک غریب ملک میں جنم لینا۔ ایک شخص غریب پیدا ہو سکتا ہے لیکن مرتے دم تک غربت کاٹے تو اس میں نااہلی کس کی ہے ۔ درحقیقت جہاں وسائل نہ ہونے کے برابر اور مسائل کی بھرمار ہو وہاں غربت ہی قوم کا مقدر بنتی ہے۔ یہ وہ ملک ہےجہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت یا اس سے بھی نیچے کی زندگی بسرکر رہا ہے اور حالیہ اندازے کے مطابق، ملک میں غربت کی شرح 78.5%تک پہنچ گئی ہے۔جس میں سےلگ بھگ 58.3%درمیانہ طبقہ پچھلے6ماہ سے غربت کی لکیر تک پہنچ گیاہےجبکہ 24.2% غریب طبقہ خطِ غربت سے بھی نیچے چلا گیا ہے ۔غربت کی اصل وجہ ہرگزرتے دن کر ساتھ مہنگائی میں بدترین اضافہ ہے۔جیسا کہ ایک مشہور مثال ہے: ’غربت اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘۔اور پاکستان کی غریب عوام پچھلے ۳۵ سالوں سے اس کہاوت کی بہترین مثال بنی ہوئی ہے۔ ان ۳۵ سالوں میں کئی سیاسی جماعتیں اور فوجی ڈکٹیٹرز نے راج کیا۔برسرِاقتدار حکومتوں نےغربت کی شرح کو کم کرنے کے لئے متعدد اقدامات بھی لیئے لیکن مناسب حکمتِ عملی نہ ہونے کی بنا پریہ اقدام کامیاب نہ ہو سکےاور اربوں روپیہ ضائع ہوئے۔ حکومت کی طرف سے مختص کردہ رقوم میں بہت زیادہ غبن اور لوٹ مار کی گئی جس کی وجہ سے غربت کم ہونے کے بجائے بڑھنےلگی۔ آئے دن بجلی، گیس اور پٹرول میں ہونے والے اضافے نے غریب عوام کی کمر توڑ کررکھ دی ہےاورمتعلقہ اداروں کی لاپرواہی اورباقاعدہ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے،کاروباری طبقہ اس آڑ میں جلتی پہ تیل کا کام کر گیااوراشیائےخردونوش اور دیگرگھریلو استعمال کی اشیاءکوضرورت سے زیادہ مہنگا کر دیا ہے۔ جس کے نتیجےمیں کاروباری طبقے نے توچلتے حالات پر کچھ قابو پا لیالیکن جو ٹھیس سفید پوش طبقے کو لگی، وہ نا قابلِ تلافی ہے۔ یوں غریب،خطِ غربت سے بھی نیچے چلا گیا اورمتوسط یعنی سفید پوش طبقہ غربت کی لکیر تک جا پہنچا۔ پچھلے چند سالوں کے مقابلے میں مہنگائی دس گنا بڑھ گئی ہے۔
غربت کی دوسری سب سے بڑی وجہ حکومت کی طرف سے لگائے گئے ٹیکس کی بھاری شرح ، جس نے عوام کو بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر دیاہے۔تعلیم اورعلاج و معالجہ جیسی سہولت تو غریب کے لئے ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔اوراگربامشکل غریب آدمی اپنے بچوں کو تعلیم دلوا نے میں کامیاب ہو بھی جائےتو اسے یہ بےروزگاری مار دیتی ہے۔اور بدقسمتی یہ کہ ، ہمارے ملک کے ہونہار طالبعلم، اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں وصول کر کے چند سال بےروزگاری کاٹنے کے بعدچاروناچارباہر ممالک کارُخ کر لیتے ہیں۔ بات کی جائےعلاج و معالجہ کی ، توغریب آدمی بیماری اور ہسپتال کے نا م سے ہی گھبراتا ہے۔کیونکہ دو وقت کی روٹی تو کسی نہ کسی طرح پوری ہو ہی جاتی ہےلیکن علاج اور دوائیوں کا خرچ ایک عام انسان کے بس سے باہر ہے۔ اب ایسے کٹھن حالات سے نمٹنے کے لئےہماری حکومت غربت سے خاتمے کے لئے اپنااہم روایتی انداز اپناتی ہے اورامریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے اربوں روپےامداد کی مد میں وصول کرتی ہے۔لیکن بدقسمتی یہ کہ اتنے بھاری امدادی فنڈزکے باوجود بھی غربت اور مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔اس ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں،جیسا کہ حکومتی فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم ، حکومتی اداروں کی کھلم کھلاکرپشن، غیرملکی امداد کااصل حقداروں تک نہ پہنچنا اورمتعلقہ سرکاری اور نجی اداروں کی عدم دلچسپی اور نا اہلی۔ایسی پیچیدہ صورتِ حال میں ایک عام انسان تو پِس کر رہ گیا ہے۔
ایسے حالات جہاں نفسانفسی کا عالم ہو وہاں غریب کی آہ وزاریاں کس کو سنائی دیں گی، جہاں کرسی اور اقتدا ر کی جنگ ہو وہاں غریب کابھوکا پیٹ کس کو نظر آئے گا اور جہاں غربت کے خاتمے کا نعرہ لگا کر غریب ہی ختم ہو کر رہ جائے تو ایسی دھرتی کے باسیوں کے لئے حق کی آواز کون سر بلند کرے گا۔بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور روزگار کے مواقع،عوام کا بنیادی حق ہےیہ حق، حقداروں تک پہنچانا نا گزیر ہےاور یہی غربت کی شرح کو کم کر کےاسے جڑ سے اکھاڑنے کا واحد ذریعہ ہےورنہ مہنگائی اور غربت نے عوام کو مایوسی کےاندھےکنویں میں دھکیل دیا ہے اس سے نکلنا مشکل ہے۔ایسے کٹھن حالات میں عوام کس کواپنا مسیحا مان کرخوشحالی کی امیدرکھے؟ایسے میں غریب کے ذہن میں کوئی بھی رہنما امید بن کرنہیں ابھرتا، پھر یوں غربت سے چوُر یہ عام شہری اپنا معاملہ اوپر والے کی عدالت میں بھیج دیتا ہے کیونکہ دکھی دلوں کی صدا سننے والا اللہ ہے جوبےشک بڑا انصاف کرنے ولاہے۔وہ چاہے تو بڑے سے بڑا تخت الٹ کر رکھ دے۔لہٰذا، اب وقت ہے کہ ترقی و خوشحالی کے ایک تابناک دور کے آغاز کا، جہاں غریب کا کمزور ہاتھ مضبوطی سے تھام کر حق کا جھنڈا سربلند کیا جائے۔کیونکہ ذمہ داریوں کا اطلاق صرف حکمرانوں اور انتظامی اداروں تک ہی نہیں بلکہ یہ ان تمام لوگوں پر لاگوہوتا ہے جو کہ بااثر اور صاحبِ حیثیت ہیں ۔ اوریہی لائحہ عمل ایک کامیاب اور خوشحال قوم کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں