ایف بی آر فراڈ ۔۔۔ افسران کے اثاثوں کی تفصیلات کس کے پاس؟

FBR-and-parliment 13

اسلام آباد:چیئرمین سینیٹ نے ایف بی آر کے بڑے بڑے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کردیا اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ ایف بی آر کا ادارہ بہت بڑا فراڈ بن چکا ہے اگر یہ ادارہ درست ہوجائے تو پورے ملک کے قرضے ختم ہوسکتے ہیں۔سینیٹ اجلاس کے وفقہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی جارہی ہیں انہوں نے کہاکہ ایف بی آر اس وقت فراڈ بیورو بن چکا ہے اور اس میں اربوں روپے کا فراڈ ہوتا ہے اگر ایک ایف بی آر ٹھیک ہوجائے تو پورے ملک کے قرضے ختم ہوسکتے ہیں انہوںنے کہاکہ اس پارلیمنٹ میں ایف بی آر کے افسران کے اثاثوں کا سامنے لایا جائے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ یہ پابندی حکومت کی جانب سے ہے اس وقت چیرمین سینیٹ نے کہاکہ ہمارے اثاثے کو ظاہر کئے جاتے ہیں ان کے اثاثے کیوں نہیں لائے جاتے ہیں انہوںنے کہاکہ یہ اثاثے پارلیمنٹ نے مانگے ہیں لہذا اس ایوان کو یہ اثاثے دئیے جائیں جس پر وزیر مملکت نے کہاکہ اگر کسی ایک آفیسر کے اثاثے مانگے جائیں تو وہ دے سکتے ہیں تاہم سب افسران کے اثاثے ظاہر نہیں کئے جاسکتے ہیں سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ کیا پارلیمنٹ تھرڈ پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے انہوںنے کہاکہ یہ قانون 2016میں بنایا گیا تھا اس قانون کو ختم کیا جائے اور نئی قانون سازی کی جائے رانا مقبول احمد نے کہاکہ ایف بی آر کے اعلیٰ افسران عوام کو نچوڑتے ہیں ایف بی آر کے افسران دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اس حوالے سے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو کی جائے اس موقع پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیااجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں 7محکمے سربراہوں کے بغیر ہیں اس وقت پی ایس کیو سی اے کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے انہوں نے کہاکہ ابھی تک وفاقی وزیر کی شکل نہیں دیکھی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ ڈائریکٹر جنرل پی ایس کیو سی اے کا سربراہ گذشتہ10سالوں سے تعینات نہیں ہوسکا ہے اس حوالے سے انٹریوز ہوچکے ہیں اور جلد ہی تعیناتی ہوگی انہوں نے کہاکہ سی ڈبلیو ایچ آر کا محکمہ بھی گذشتہ 10سالوں سے سربراہ کے بغیر ہے تاہم اس کی وجہ ادارے کی منتقلی ہے انہوں نے کہاکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے دیگر اداروں میں بھی سربراہوں کی تعیناتی کی جارہی ہے چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیاسینیٹر بہرہ مند تنگی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ5سالوں کے دوران جعلی اینوائسز کی بنیاد پر صرف دو بڑی دکانوں کو سیل کیا گیا ہے یہ صورتحال درست نہیں ہے جس پر وزیر مملکت سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ لاہور اور اسلام آباد میں دو آوٹ لیٹس کو بغیر تصدیق اینوائس کی بنیاد پر سیل کیا گیا ہے انہوںنے کہاکہ ایف بی آر بہتر انداز میں کام کر رہی ہے سینیٹر محمد ہمایون مہمند نے کہاکہ ریڑھی اور چھابڑی والوں کے ساتھ بڑے بڑے سٹورز کو ملانا درست نہیں ہے اس وقت ملک مشکل صورتحال کا شکار ہے اس وقت ریٹیل سیکٹر کا ٹیکس نیٹ میں حصہ بہت کم ہے اس کی کیا وجہ ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ کاروباری طبقے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ پوری وفاقی کابینہ کا بوجھ ایک وزیر مملکت پر ڈالا گیا ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ ملک میں بننے والی گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور کوالٹی ناقص ہوچکی ہے اس حوالے سے حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ 60فیصد گاڑیوں کے پرزے منگوائے جاتے ہیں اور ملک میں اسمبلی کی جاتی ہیں انہوں نے کہاکہ جو گاڑیاں باہر سے آتی ہیں ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے سینیٹر جام مہتاب ڈھر نے کہاکہ گاڑیوں کی قیمتوں کے کنٹرول کیلئے ملک میں کوئی اتھارٹی نہیں ہے اگر پرزے باہر سے منگوا کر ملک میں مہنگی بیچنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ باہر سے پرانی گاڑیاں منگوائی جائے انہوںنے کہاکہ اس وقت ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ اگر حکومت کاروبار کو ریگولیٹ کرنا شروع کرے تو اس سے مسائل پیدا ہونگے انہوںنے کہاکہ حکومت صرف پالیسی دیتی ہے جبکہ ریٹس کمپنیاں خود فکس کرتی ہیں انہوںنے کہاکہ جب تک ملک میں مقابلے کی فضا نہ ہو اس وقت تک قیمتیں کم نہیں ہوسکتی ہیں انہوں نے کہاکہ حکومتیں آتی جاتی ہیں سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ حکومت ریگولیٹر کے طور پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہے اس حوالے سے ای ڈی بی کے نام سے ایک بورڈ بنایا گیا ہے تاہم اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے سینیٹر سرفراز بگٹی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل بنک کے اشتہار میں پورے بلوچستان سے صرف ایک اسامی جبکہ خیبر پختونخوا سے کوئی اسامی نہیں ہے اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا سینیٹر مشتاق احمد خان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ گلابی نمک پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے یہ کن کن ممالک کو برآمد ہورہا ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ گلابی نمک انڈیا نہیں جارہا ہے تاہم یورپی ممالک میں یہ نمک بھیجی جارہی ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں