پنجاب انتخابات معاملہ، سپریم کورٹ میں اہم سماعت ، تحریک انصاف کے جواب میں کونسے اہم نکات شامل؟

supreme-court-of-pakistan faisal wavda 208

سپریم کورٹ میں پنجاب انتحابات پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آئے ، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی، تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دین، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی ،تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے، تحریک انصاف نے پنجاب الیکشنز نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا، تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کردی، جواب میں کہا گیا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئےنکات اٹھائے ہیں،نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائےجاسکتے،الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے،عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی،عدالت نے 90روز میں انتخابات کےلئے ڈیڈلائن مقرر کی،صدر مملکت نے انتخابات کےلئے 30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا،سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کافیصلہ کالعدم قرار دیکر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا،30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی،عدالت نے فیصلے میں 13 دن کی تاخیر کو کور کیا،سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے جائزہ لینے کا اختار ہے،الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے،نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا،90 روز میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے،آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے،آئین میں نہیں لکھا تمام انتخابات ایک ساتھ ہونگے،الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی،آرٹیکل 254 کےلئے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا،آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کےلئے استعمال ہوئی،عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کےلئے مسترد کرچکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں