پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون، فواد چوہدری کا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ

PTI-azadi-march-9th-day 44

اسلام آباد: مرکزی سنئیرنائب صدر تحریک انصاف چوہدری فواد حسین نے ریاستی و حکومتی فیصلہ سازوں کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دے دیا ۔امپورٹڈ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف بدترین کریک ڈائون پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ معیشت سنبھالنے سے لے کر شہریوں سے برتائو تک نالائقوں اور نکموں کا اقتدار پر قابض انتشار کی تاریخ رقم کر رہا ہے، بیوقوفوں کا گروہ سمجھے بغیر معاملات میں کودتا ہے ارو اصلاح کی بجائے بدترین خرابی پیدا کرتاہے۔عقل سے یکسر پیدل حکمران ٹولہ سوشل میڈیا کو سمجھے بغیر محض ریاستی جبر اور فسطائیت کے ذریعے اس سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے، شکست خوردہ بیوقوف معصوم نوجوانوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے پہلے معاملے کو سمجھیں ، سماجی میڈیا پر اختلاف رائے کا جواب تشدد اور غنڈہ گردہ سے دینا پرلے درجے کی حماقت ہے، معیشت کی اصلاح، داخلی اور خارجی چینلجز کے مقابلے میں وسائل صرف کرنے کی بجائے انہیں سوشل میڈیا پر کون کیا کہتا ہے اور کون کیا نہیں کہتا پر جھونکا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہر شہری اپنی آزاد سوچ اور آواز رکھتا ہے جسے بازور جبر دبانا کسی کے بس میں نہیں ، ناقص پالیسیوں اور احمقانہ فیصلوں پر تنقید کا جواب تشدد اور چھاپوں سے دینے والوںکومزید شدت سے تنقید کا سامنا کرنا ہوگا، بیرون ملک بسنے والے تقریباً نوے لاکھ پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں آزادی اظہار بنیادی حق کے طور پر ان پاکستانیوں کو حاصل ہے، حکومتی پالیسیوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید کرنے والے نوجوان ان نوجوانوں سے بہتر ہیں جو اسلحہ تھامتے اور ملک کے گلی کوچوں میں فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں، تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکنان اور ذمہ داران ایک جامع ضابطہ عمل کے پابند ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کے خلاف کارروائیاں اس گروہ کی ایماء￿ پر کی جا رہی ہیں جوخواتین ، ریاستی اداروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف بہیودگی اور بے حیائی سے بھرے مواد کے ذریعے مہم جوئی کرتارہا ہے، ریاست طاقت کے بے جا استعمال سے پہلے خود احتسابی کے ذریعے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے، تحریک انصاف کے کارکنان اور شہریوں کے خلاف جاری بدترین کریک ڈائون روک کر احمقانہ فیصلوں پر اصرار کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں