عمران خان ، فواد چوہدری کے وارنٹ گرفتاری معطل

Fawad-Chaudhary-Imran-khan-news 73

راولپنڈی :ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس صداقت علی خان ،جسٹس مرزا وقاص رئوف اورجسٹس چوہدری عبدالعزیزپر مشتمل لارجر بنچ نے الیکشن کمیشن کے خلاف عمران خان اور فواد چوہدری کی پٹیشنز پر الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق کاروائی جاری رکھنے کا حکم دے دیا ہے عدالت نے عمران خان اور فواد چوہدری کے 14 مارچ کے لئے جاری وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کے ساتھ توہین الیکشن کمیشن کی کاروائی سے متعلق درخواستیں بھی زائدالمیعاد قرار دے کر خارج کر دی ہیں فاضل لارجر بنچ نے درخواست گزاروں کی جانب سے پٹیشنیز واپس لینے پر تینوں پٹیشنیز نمٹا تے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کاروائی جاری رکھے عدالت نے ریمارکس دئیے کہ عدالت الیکشن کمیشن کی کاروائی میں مداخلت نہیں کرے گی البتہ لیکشن کمیشن کے فیصلے کو فریقین میں سے کوئی بھی چیلنج کر سکتا ہے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق بھی انکوائری چیلنج کرنے کی صورت میں درخواست گزار کو عبوری ریلیف نہیں دیا جاسکتا عدالت نے قرار دیا کہ جب درخواست گزار نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ہی چیلنج کررکھا ہے تو الیکشن کمیشن کیسے کاروائی جاری رکھ سکتا ہے الیکشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے اور توہین آمیز ریمارکس دینے پر تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا تھا جس کے خلاف قبل ازیں عمران خان اور فواد چوہدری نے اپنے وکلا کے ذریعے 3ایک جیسی پٹیشنیں دائر کر رکھی تھیں جبکہ دوران کاروائی عدالتی احکامات کے باوجود وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر بھی الیکشن کمیشن کے4اراکین کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی پیر کے روز تمام پٹیشنوں و درخواستوں کی سماعت کے موقع پردرخواست گزاروں کے وکیل فیصل چوہدری،علی بخاری، الیکشن کمیشن کے وکیل شرجیل شیخ،شہریار سواتی ،الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈی جی لاء خرم شہزاد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک صدیق اعوان عدالت میں موجود تھے سماعت کے آغاز پرجسٹس صداقت علی خان نے درخواست گزاروں کے وکیل سے استفسار کیا کہ 16جنوری کو عدالت نے جو اوارنٹ گرفتاری معطل کئے تھے کیا اس کے بعد درخواست گزار الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جس پر درخواست گزاروں کے وکیل ن بتایا کہ اس کے بعد کی تاریخ پر فواد چوہدری جیل میں تھے لیکن الیکشن کمیشن نے 28فروری کو ایک بار پھر قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں پہلا نوٹس سیکریٹری الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہمارا اعتراض یہ تھا کہ سیکریٹری نوٹس جاری نہیں کر سکتا لہٰذا الیکشن کمیشن یا تو نظر ثانی کرے یا یہ نوٹس واپس لے لیکن الیکشن کمیشن نے ہماری بات نہیں سنی جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ عدالت میں آپ کی ایک پٹیشن توتوہین الیکشن کمیشن کی کاروائی سے متعلق ہے جس میں آپ کا اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن کو توہین الیکشن کمیشن کی کاروائی کا اختیار نہیں ہے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب الیکشن کمیشن میں جاری کاروائی پر کوئی فیصلہ ہی نہیں ہوا تو عدالت سے رجوع کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا جس پر درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کو از خود توہین الیکشن کمیشن کی کاروائی کا اختیار نہیں ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت کسی بھی انکوائری چیلنج کرنے میں درخواست گزار کو عبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت آپ کو ایک قانونی سمت کی طرف لے جانا چاہتی ہے اپ پہلے ہی الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں پہلے الیکشن کمیشن کو اپنی کاروائی مکمل کرکے فیصلہ تو کرنے دیں جس پر درخواست گزاروں کے وکیل کا موقف تھا کہ عدالت الیکشن کمیشن کو ڈائریکشن جاری کرے کہ وہ پہلے ہمارے اعتراضات پر فیصلہ کریں جس پر عدالت نے قرار دیا کہ آپ کے اعتراضات میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا بھی ذکر ہے جس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے28فروری کو فیصلہ کرنا تھا تو پہلے ہمارے اعتراضات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ اپنی پٹیشن واپس لیں تو پھر عدالت الیکشن کمیشن کو یہ دائریکشن دے سکتی ہے کہ وہ آئین و قانون کے مطابق میرٹ پر فیصلہ کریں لیکن جب پہلے ہی آپ معاملہ عدالت میں لے آئے ہیں تو الیکشن کمیشن کیسے سماعت کرے گا لہٰزا آپ کو پہلے پوری کاروائی میں شامل ہونا پڑے گا ایک طرف آپ نے الیکشن کمیشن میں بھی اعتراض لگائے اور دوسری طرف معاملہ ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کر دیاآپ پہلے الیکشن کمیشن کو آزاد ماحول میں فیصلہ کرنے دیں پھر فریقین میں سے جو چاہے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے پھر عدالت اس معاملے کو میرٹ پر دیکھے گی اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل شرجیل شیخ نے موقف اختیار کیا کہ 14فروری کو الیکشن کمیشن نے بحث کے لئے سماعت مقرر کی اس دوران درخواست گزاروں نے ایک متفرق درخواست دائر کر دی جس سے کاروائی ملتوی کرنا پڑی اس کے بعد بھی مقررہ تاریخ پر نہ تو درخواست گزار پیش ہوئے اور نہ ہی ان کے وکیل موجود تھے جس کے بعد یہ28فروری کو بھی پیش نہیں ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل کے اعتراض پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے جو قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کئے وہ اسی مخصوص تاریخ کے لئے تھے لہٰذا مزید کاروائی یا آئندہ تاریخ پر درخواست گزار حاضری استثنیٰ کی درخواست دے سکتے ہیں جس پر فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعدتینوں پٹیشنیں نمٹا دیں وارنٹ کے اجرا کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں بھی زائدالمیعاد قرار دے کر خارج کر دی ہیں عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کاروائی جاری رکھے عمران خان اورفواد چوہدری کی جانب سے سیکریٹری وزارت قانون ،چیف الیکشن کمشنراور سیکریٹری الیکشن کمیشن کو فریق بناتے ہوئے دائرپٹیشنوں میں موقف اختیار کیا تھا کہ درخواست گزارکو 19اگست 2022کوالیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن10کے تحت 2الگ الگ نوٹس موصول ہوئے جس میںدرخواست گزار کوچیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے اور توہین آمیز ریمارکس دینے پر کمیشن کوحاصل اختیارات کے تحت توہین کی کاروائی کا عندیہ دیا گیا پٹیشن میں کہا گیاتھا کہ الیکشن کمیشن توہین عدالت آر ڈی نینس 2003کے تحت ہائی کورٹ کو حاصل اختیارات کی طرز پر کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کرنا چاہتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ2017کی سیکشن10مکمل طورپر آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین کی سیکشن204میں واضح ہے کہ عدالت سے مراد صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ہیں اور یہ اختیار صرف عدالت کو ہے کہ وہ عدالتی کاروائی میں کسی طرح بھی مداخلت یا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے مرتکب ، عدالتوں کوسکینڈلائز کرنے یا نفرت انگیزی پھیلانے، توہین کرنے ، عدالتوں میں زیر التوامعاملات میںتعصب پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کر سکتی ہے اس تناظر میں آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی الیکشن کمیشن کو عدالت قرار نہیں دیا جا سکتا لہٰذا عدالت الیکشن کمیشن ایکٹ کی اس سیکشن کوخلاف آئین قرار دیا جائے اور درخواست گزار کو دیئے گئے نوٹس کو معطل کیا جائے 23مارچ 1956کو الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے بعد متعدد مرتبہ اس کی تنظیم نو کے علاوہ اس میں اصلاحات کی گئیںاور الیکشن کمیشن ایک آزاد ، خود مختار اور آئینی وفاقی ادارہ ہے جس کا کام ملک بھر میں صرف انتخابات کا انعقاد ہے اسی طرح 9مارچ کو عمران خان نے الیکشن کمیشن سے جاری وارنٹ کو ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میںچیلنج کر نے کے ساتھ نثار درانی، شاہ محمد جتوئی، بابر بھروانہ اور اکرام اللہ خان پر مشتمل الیکشن کمیشن کے4اراکین کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھاکہ توہین الیکشن کمیشن سے متعلق ایک درخواست پہلے بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے الیکشن کمیشن نے 3 جنوری کو قابل ضمانت وارنٹ جاری کئے تھے جبکہ 16 جنوری کو ہائی کورٹ نے یہ وارنٹ معطل کر دیئے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے 28فروری کو ایک بار پھر قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے عدالت سے معطلی کے احکامات کے باوجود وارنٹ کا اجرا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں