سپریم کورٹ نے ریلوے نظام کی بحالی اور ریلوے کو منافع بخش بنانے کا جامع پلان طلب کر لیا

supreme-court-of-pakistan faisal wavda 47

اسلام آ باد: سپریم کورٹ نے ریلوے نظام کی بحالی اور ریلوے کو منافع بخش بنانے کا جامع پلان طلب کر لیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کو قرض نہیں چاہیے، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اولڈ ریلوے گالف کلب عملدرآمد سے متعلق کیس پر سماعت کی۔ سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے ریلوے کی زمین لیز پر نہیں دے سکتے، زمین لیز پر دیکر ریونیو حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پنشنز کیلئے ریلوے کو 40 ارب روپے دیتی ہے، اس کے علاوہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دے رہی ہے، کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریلوے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں ریلوے کا شعبہ حکومت کو ریونیو دیتا ہے، ریلوے حکام ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں جامع پلان پیش کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں اربوں روپے قرض لے لیا جاتا ہے، پاکستان میں قرضہ لینا ایک حساس معاملہ بن چکا ہے، اربوں روپے قرض لینے سے پوری قوم مقروض ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اربوں ڈالر قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے، ملک میں اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اس پر کیا ڈلیور کیا ؟ پاکستان کو قرض نہیں چاہیے، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس کی ایکنک منظوری دے چکا، ایم ایل ون پروجیکٹ اربوں ڈالرز لے کر بھی مکمل نہیں ہوا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے، سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا، ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابتر ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا، ضمیمے کا عنوان تھا وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت مرعوب نہیں ہوگی، ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے، ریلوے کی زمینوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے، ریلوے لائن سے 15 فٹ کے فاصلے پر لوگوں کے گھر ہیں، ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کرے گا تو لوگ اس پر بیٹھ جائیں گے۔ دوران سماعت چیف جستس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ سارا دن ریلوے لائنوں پر بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ریلوے لائنز کو موٹروے کی طرح محفوظ کیوں نہیں بنایا جاتا تاکہ کوئی ان پر نہ آسکے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے پاکستان کی لائف لائن ہے، ریل گاڑی جس بھی اسپیڈ سے چلے منزل پر پہنچا ہی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے نظام کی بحالی اور ریلوے کو منافع بخش بنانے کا جامع پلان طلب کر لیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں