اسلام آباد بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کا معاملہ، عدالت کا بڑا حکم آگیا

Islamabad High court announce detail reply about shahbaz gill case 52

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو ملتوی کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ لاء افسران، اٹارنی جنرل اشترو اوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن 31 دسمبر کو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے؟عدالت کا نے کہا کہ کیا آپ نے اس عدالت کو جو یقین دہانی کرائی تھی کہ الیکشن ملتوی کرنا اس کی خلاف ورزی نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے اس عدالت کو مشروط یقین دہانی کرائی تھی۔ اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت اس کیس میں عارضی ریلیف نہیں دے سکتی کیونکہ یہ تو پھر پٹیشن کا مکمل ریلیف ہوگا۔عدالت نے اشتر اوصاف کو ہدایت دی کہ کیا آپ نے کل کا آرڈر دیکھا ہے؟ اس پر معاونت کریں۔ اشتر اوصاف نے کہا کہ ڈی جی لا الیکشن کمیشن موجود ہیں ان سے پوچھیں الیکشن ملتوی کیوں ہوئے۔عدالت نے کہا کہ ڈی جی صاحب یہ تو آپ پر ڈال رہے ہیں اب آپ بتائیں، کیا الیکشن کمیشن 31 دسمبر کو الیکشن کرانے پر تیار ہے؟ اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کے سامان کی ترسیل میں وقت لگے گا۔عدالت نے پوچھا کہ سامان کی ترسیل تو آپ کرچکے تھے کل آپ نے کہا تھا، اسلام آباد کے اندر ہی سامان کی ترسیل میں کتنا وقت لگے گا؟ یہ بتائیں، اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ نئی صورتحال میں 31 دسمبر کو الیکشن ممکن نہیں تھے۔عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کے منافی نہیں؟ عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل فراہم کرانے کا حکم دے دیا۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے ڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ جو فنڈز الیکشن کمیشن کو فراہم کیے گئے وہ کن چیزوں پر خرچ ہوئ؟عدالت نے کہا کہ اس وقت یونین کونسلز کی تعداد 125 ہوگئی ہے تو آپ کو حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا؟ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لیے قانون کے مطابق 60 دن کا وقت درکار ہے، عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ 60 دنوں بعد الیکشن کرانے کی پوزیشن میں ہوں گےاٹارنی جنرل نے پٹشنر سے سوال کیا کہ کیا یہ پراکسی پٹیشن ہے ؟ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کے بل کی صدر سے منظوری ہوچکی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس ہو چکا ہے، صدر کی منظوری کی ایک رسمی کارروائی باقی ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں نہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا جائے؟ اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے یونین کونسلز بڑھانے کا فیصلہ مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمارا وہ آرڈر کالعدم قرار دیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمیں فریقین کو دوبارہ سن کو فیصلہ کرنے کا کہا تو ہم نے فریقین کو سن کر ہی الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ دیامکمل ریکارڈ ساتھ نہ لانے پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو آج سارا ریکارڈ ساتھ لانا تھا، گزشتہ روز جاری کیے گئے نوٹس میں آپ کو مکمل ریکارڈ ساتھ لانے کا کہا گیا تھا۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ تحریری طور پر آج کے دن کسی بھی وقت عدالت کو آگاہ کر دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلدیاتی قانون میں ترمیم کے تحت میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات براہ راست ہوں گے، نیا بلدیاتی قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے، صدر مملکت کے دستخط باقی ہیں اب اس قانون میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اگر الیکشن پہلے ہوجاتے تو باقی یونین کونسلز کے عوام محروم رہ جاتے۔اس پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن آج ہی تحریری جواب دائر کریں، سادہ کیس ہے اب ہمیں اسے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے، آج تحریری جواب جمع کرائیں کل صبح دوبارہ یہ کیس سن لیتے ہیں، ڈی جی صاحب کیا الیکشن کمیشن نے بغیر کسی قانونی ترتیب کے کام کیا ہے، آپ کو اب جو جواب دینا ہے اس کو ذرا دیکھ کر لیجیے گا۔عدالت نے کل 10 بجے تک الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید کل دو بجے تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں